اوقاتِ نماز، سورج، سایہ اور گھڑی | ایک علمی تجزیہ

 گھڑی پر سولہویں صدی میں تقریباً 1550 عیسوی کے بعد کام شروع ہوا، بعض الگ الگ قسم کی گھڑیاں بنائ بھی گئیں لیکن عمومی طور پر یورپ میں لوگوں نے گھڑی کا استعمال کرنا سترویں صدی کے بعد ہی شروع کیا. اس حساب سے مشرقی دنیا میں گھڑی عام عوام تک انیسویں صدی میں پہنچی اور بیسویں صدی آتے آتے گڑھی تقریباً ہر خاص و عام بندے کی دسترس میں تھی. اس تناظر میں اگر اسلام اور مسلمانوں کی بات کی جائے تو چھٹی صدی عیسوی سے لے کر سترویں صدی عیسوی تک عام مسلمانوں کے پاس اوقاتِ نماز پتہ کرنے کے لئے گھر یا مسجد میں گھڑی موجود نہ تھی. دسویں گیارہویں صدی عیسوی میں بعض مسلمان سائنسدانوں نے وقت کا حساب رکھنے کے لئے سورج کی سمت و مقام اور سائے کی مدد سے مختلف آلات بنائے تھے جنہیں ہم اس وقت کی گھڑیاں کہہ سکتے ہیں لیکن وہ آلات بھی عام مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بادشاہوں کی سہولت کے لئے دستیاب تھے۔ کل ملا کر عام مسلمان کے پاس چھٹی صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں یا انیسویں صدی عیسوی کوئی بھی ایسا آلہ یا ایسی سہولت نہیں تھی کہ جس سے اوقاتِ نماز کا پتہ لگایا جا سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مسلمان اوقاتِ نماز کا کیسے پتہ کرتے تھے؟ اس کا جواب ایک حدیث نبوی میں ہے:

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا :"فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج کا پہلا کنارہ نہ نکلے، اور پھر ظہر کا وقت (تب تک) ہے جب سورج آسمان کے درمیان سے مغرب کی طرف ڈھل جائے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو جائے، اور عصر کی نماز کا وقت (تب تک) ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جائے اور اس کا (غروب ہونے والا) پہلا کنارہ ڈوبنے لگے، اور مغرب کی نماز کا وقت تب ہے جب سورج غروب ہو جائے جو سرخی غائب ہونے تک رہتا ہے اور پھر عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔‘‘ [صحيح مسلم، کتاب مسجدوں اور نماز کی جگہوں کے احکام، باب پانچ نمازوں کے اوقات، رقم 1389]


ایک اور حدیث ہے جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: "میرے ساتھ نماز پڑھو"۔ پھر آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی جب سورج (سر پر سے) ڈھل گیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا اور مغرب کی نماز پڑھائی جب سورج غروب ہو گیا۔ اور عشاء کی نماز پڑھائی جب شفق غروب ہو گئ۔ اور (اگلے دن) آپ نے نماز ظہر (تھوڑی تاخیر سے) پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہو گیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب انسان کا سایہ اس سے دگنا ہو گیا اور مغرب کی نماز غروب شفق سے تھوڑی دیر پہلے پڑھائی اور عشاء کی نماز (تاخیر سے) تہائی رات کے وقت پڑھائی۔" [سنن نسائی، کتاب اوقافِ نماز سے متعلق احکام و مسائل، رقم 505, حکم صحیح]


ان احادیثِ نبوی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب گڑھی کا وجود نہ تھا تو مسلمان سورج کی سمت اور مقام کو یا سورج سے بننے والے سائے کو دیکھ کر اوقاتِ نماز کا پتہ لگایا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ آج کون مسلمان اس طرح اوقاتِ نماز کا پتہ کرتا ہے؟ آج کون سورج کو دیکھ کر یا سائے کو دیکھ کر نماز ادا کرتا ہے؟ تو جواب ہے کہ کوئی بھی نہیں کیونکہ ہر کسی کے پاس گھڑی ہے یا ایسے آلات موجود ہیں کہ جس سے بڑی آسانی کے ساتھ وقت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس کو نماز پڑھنی ہوتی ہے وہ گھڑی کے ذریعے وقت کا پتہ کر کے نماز پڑھ لیتا ہے۔ اب تو ٹیکنالوجی کی بدولت یہاں تک سہولت موجود ہے کہ موبائل فون میں ہی اوقاتِ نماز کے سوفٹویئر موجود ہیں جو وقت پر اذان بھی سنا دیتے ہیں اور جن کی مدد سے بندہ کہیں بھی ہو وقت پر نماز بھی ادا کر سکتا ہے۔ ہماری مساجد میں اوقاتِ نماز کا پورا ایک ڈیجیٹل بورڈ لگا ہوتا ہے جس کی ٹائمنگ کے مطابق ہی مؤذن اذان بھی دیتا ہے اور امام صاحب نماز بھی پڑھاتے ہیں۔ اب پوری دنیا میں اوقاتِ نماز پتہ کرنے کا یہی طریقہ کار ہے، عرب ہو یا عجم، ہر جگہ اسی طرح وقت کا پتہ لگا کر نماز ادا کی جاتی ہے، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی ٹائم کے مطابق ہی اذان ہوتی ہے اور ٹائم کے مطابق ہی جماعت کروائ جاتی ہے. کوئی بھی نماز یا اذان سے پہلے نہ سورج کی سمت اور مقام کو دیکھتا ہے اور نہ ہی کوئی سائے کو دیکھتا ہے۔


اب اگر آج کوئی شخص یہ کہے کہ "دیکھو رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ کے زمانے میں تو سورج کے مقام کو یا سائے کو دیکھ کر ہی نماز پڑھی جاتی تھی جیسا کہ خود رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے اور احادیث میں موجود بھی ہے تو اب سے ہم بھی گھڑی کا استعمال نہیں کریں گے، ہم بھی سورج کو دیکھ کر اور سائے کے مطابق ہی نماز پڑھیں گے"۔ تو پھر ایسی بات کرنے والے پر یا تو ہسی آ سکتی ہے یا پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسا لازماً علم سے محروم ہوگا جسے اس بات کی خبر نہ ہوگی کہ کھڑی کو بھی سائنسدانوں نے سورج کی سمت و مقام اور سائے کی مدد سے ہی تیار کیا تھا لہذا اس کے پیچھے بھی وہی اصول کارفرما ہے۔ ج معاملہ اوقاتِ نماز کا ہے وہی سارا معاملہ ماہِ رمضان کے چاند کا اور اوقاتِ سحر و افطار کا بھی ہے، جسے بلا وجہ ایک بہت بڑا مدعا بنا کر انتشار پھیلایا گیا۔ اگر اور کوئی یہ کہے کہ وہ نماز کا مسئلہ ہے یہ روزے کا مسئلہ ہے، وہ الگ بات ہے یہ الگ بات ہے تو معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ کوئی الگ بات نہیں ہے، نماز بھی فرض عبادت ہے اور ماہِ رمضان کے روزے بھی فرض عبادت ہیں. ماہِ رمضان کے روزے تو صرف 30 دن کا معاملہ ہے جبکہ نماز تو پورے سال، 12 مہینے، ہر روز کا معاملہ ہے۔ اس حساب سے تو ہمیں ماہِ رمضان کے روزوں سے زیادہ محتاط نماز کے مسئلے میں ہونا چاہیے۔


اس سال ماہِ رمضان جو کچھ ہوا وہ سب مد نظر رکھتے ہوئے اور موجودہ صورت حال کو دیکھ کر ایسا کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی عین ممکن ہے کہجس طرح ماہِ رمضان اور رؤیت ہلال کو اتنا بڑا مسئلہ اور مدعا بنا دیا گیا ویسے ہی کوئی آئندہ نماز یا اذان کا بھی مدعا بنا دے؟ لہٰذا ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دین میں ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے اور جدید دور میں دین پر عمل پیرا ہونا مزید آسان بنا دیتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس کئی مثالیں موجود ہیں، جیسے اذان اور خطابات کے لئے مائک اور سپیکر کا استعمال، قرآن و حدیث کے لئے پرنٹنگ پریس کا استعمال، قرآن کی کمپیوٹر ٹائپنگ، قرآن و حدیث کے سوفٹویئر، دعوت و تبلیغ کے لئے ٹیلی ویژن، ریڈیو اور سوشل میڈیا کا استعمال. گزشتہ دور میں حج یا عمرہ پر جانے کے لئے اونٹ یا گھوڑے کی سواری کا استعمال کیا جاتا تھا اور کئی دن یا ماہ پر محیط سفر ہوتا تھا جبکہ ٹیکنالوجی کی برکت سے آج وہی سفر گاڑی، ٹرین اور ہوائی جہاز کی بدولت چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے اور وہ بھی بہت آسانیوں کے ساتھ۔ ایسی ہی بےشمار مثالیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال نے ہمارے لئے دین پر عمل پیرا ہونا مزید آسان بنایا ہے. اگر بالفرض کوئی عبادت اور دیگر دینی مسائل میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو غلط سمجھتا ہے تو اسے اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک عرصہ دراز سے پوری دنیا کے مسلمان اوقاتِ نماز کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اور اس میں کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تو پھر ماہِ رمضان میں رؤیتِ ہلال کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے غلط یا حرام ہو سکتا ہے؟ اور اگر غلط ہے تو پھر آج تک کی ان تمام نمازوں کا کیا جو سورج یا سایہ دیکھ کر نہیں بلکہ گھڑی پر ٹائم دیکھ کر ادا کی گئیں؟ اب اگر ہم اسی طرح ٹیکنالوجی کو لے کر اپنے باقی تمام دینی مسائل میں بھی یہی طرز عمل اپنائیں گے اور وہی سب کریں گے جو کچھ اس ماہِ رمضان میں رؤیتِ ہلال کے مسئلے پر کیا تو یقین جانیں کہ ہمارا جینا محال ہو جائے گا اور موجودہ نسل کو دین پر عمل پیرا ہونے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ نے فرمایا:


 "(لوگوں کے لئے) آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو نفرت نہ دلاؤ۔" [صحیح بخاری، 6125]


لہٰذا میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جن مسائل کو ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑی آسانی سے سلجھایا جا سکتا ہے اور لوگوں کے لئے دین میں آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں، انہیں بن بات کے مدعا بنا کر عوام کو تذبذب اور انتشار میں مبتلا کرنا کسی طرح بھی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ میں نے یہ چھوٹا سا مضمون دین کا ایک ادنٰی سا طالب علم ہونے کے ناطے لکھا ہے جو کہ محض میرا علمی تجزیہ ہے، کوئی بھی چاہے تو اس سے اختلاف رکھ سکتا ہے اور میری اصلاح بھی کر سکتا ہے


 حبيب بلال 

ریسرچ اسکالر، شعبہ اسلامی مطالعات، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری (جموں و کشمیر) 

habib.sayedbilal@gmail.com

Pir Panjal Post is a blogging outlet which aims at educating people and creating awareness on the issues concerning human society like Education, Politics, Economics, Science, art and literature. The main focus of this blog is on encouraging the budding writers, poets, painters, calligraphers, photographers etc. Besides, it intends to serve the vernacular languages.