پیر پنجال میں سیکولر ازم کا بخار | محمد ارشد چوہان


خطہ پیر پنجال کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں زندگی کے ہر شعبہ جات میں یہاں کے لوگوں کو پسماندہ رکھا جاتا ہے - علاقے میں کوئی ڈھنگ کا ہسپتال ہے نہ ڈاکٹروں کا اسٹاف، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی جس میں بھی چند ایک ہی مضامین ہیں کو چھوڑ کر علاقے میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے - لوگ علاج و معالجے کے لیے سورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ، جموں میڈیکل کالج اور چندی گڑھ وغیرہ کا رخ کرتے ہیں - 2008 میں اسوقت کے چیف منسٹر آزاد صاحب نے پونچھ میں ایک یونیورسٹی کیمپس کا اعلان کیا تھا جسکا کام زمین نہ ملنے کیوجہ سے ابھی سرد خانے میں پڑا ہوا ہے- پورے ریجن میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں ملے گا جس پر فخر کیا جا سکے - سرکاری دفاتر میں کرپشن عروج پر ہے - مٹھی بھر لوگوں نے ان دفاتر کو یرغمال بنایا ہوا ہے باہر سے کوئی بھی نیا افسر آتا ہےتو اسکی خوشامد و بوٹ پالش کر کے خوب لوٹ مار کی جاتی ہے - علاقے کے عام عوام کو اپنے حقوق بارے آگاہی نہیں - کوئی بھی سینٹرل یا اسٹیٹ گورنمنٹ کی ویلفیئر اسکیم ہو مستحق عوام انکے ثمرات سے پرے ہی رہتے ہیں - 1962 میں جموں - پونچھ constituencyمعرض وجود 
میں آئی -


 تب سے ابتک اس حلقہ سے کل نو ایمپیز جیتے جن میں سے یہاں سے زیادہ دیر کانگریسی امیدوار جیتتے رہے ہیں -کہنے کا مطلب کہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتنے والے ٹھاکر بلدیو سنگھ کے تین سال، بی جے پی کے ویشنو دت گپتا کے پانچ سال اور 2002 میں این سی کی ٹکٹ پر طالب چوہدری کے دو سال اور 2014 میں بی جے پی کے جگل کشور شرما کے پانچ سال ملا کر 15 سال نان کانگریسی امیدوار اس حلقے سے جیتے ہیں - باقی 40 سا ل اس سیٹ پر کانگریس کے کینڈیڈیٹس کامیاب ہوتے رہے ہیں -لوک سبھا کی یہ constituency  بیس ریاستی اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے - جسمیں 13 حلقے جموں و ریاسی اضلاع کے آتے ہیں اور 07 پیر پنجال علاقے کے - ثقافتی و تہذیبی اعتبار سے  پیر پنجال  ایک الگ پہچان رکھتا ہے اور انصاف کا تقاضہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس پسماندہ علاقے کی جموں سے الگ لوک سبھا سیٹ ہوتی - ملی ٹینسی ہو یا ایل او سی پر انڈیا - پاک ہاتھا پائی یہاں کے لوگ اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں جبکہ ڈیلوپمنٹ کے زیادہ تر فنڈ کشمیر پرونس اور جمو ں میں ہی خرچ کئے جاتے ہیں بچا کھچا اس علاقے کو ملتا ہے جو کرپشن کی وجہ سے عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتا - علاقہ پیر پنجال سے سوتیلے سلوک کے باوجود یہاں کے لوگوں نےہمیشہ امن بھائی چارے اور سیکولرازم کو اسپورٹ کیا ہے - سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویٰ دار انڈین نیشنل کانگریس کا امیدوار پونچھ و راجوری کا ووٹ اکثریت میں لے کر اس سیٹ سے کامیاب ہوتا رہا ہے - اور پیر پنجال کے ساتھ ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس نے اس علاقے سے ایک دفعہ بھی کسی امیدوار کو ٹکٹ اس لئے نہیں دیا کیونکہ پارٹی کی سوچ ہے کہ پھر جموں ریجن سے کانگریس کو ووٹ نہیں پڑیں گے - یہ سیکولر ازم ہمیشہ فرض ہم نے ہی سمجھا ہے  جموں ریجن کے لوگوں نے نہیں - یہ بھی الگ بات ہے کہ جن کو ہم سیکولر سمجھ کر ووٹ ڈالتے ہیں وہ بعد میں بی جے پی کی جھولی میں کھیلتے نظر آتے ہیں - محترم شام لال شرما جی آج ہی کی زندہ مثال ہیں - ان محترم کے برادر صغیر دو بار ہم نے سیکولر ازم کے نام پر لوک سبھا بھیجے - کل تک سیکولر ازم کا گیت گانے والے شام لال کو چوکیداری کا نیا سفر مبارک ہو - 2014 میں اس حلقہ سے جیتنے والے چوکیدار جگل جی پانچ سال کے لئے نیپال کے جنگلات کا رخ کر گئے تھے، کہیں دیکھے نہیں - پانچ سالوں بعد اب دوبارہ زندہ ہو کر واپس آئے ہیں ووٹ مانگنے - سوامی جی کی طرح شائید جگل بھی میری چوکیدار والی بات پر برا نہ مان جاے کیونکہ بقول سوامی پنڈت کبھی چوکیداری نہیں کرے گا - بہر حال تب کہ جگل کی وضاحت آتی ان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے متعارف شدہ اصطلاح استعمال کرتا رہوں گا - ایک اور سیکولر چہرہ جس پر ہم جان چھڑکتے تھے وہ ہیں لال سنگھ جی جنکو جموں و کشمیر کا فیاض الحسن چوہان کہا جاے تو بے جا نہ ہوگا - پچھلے الیکشن میں کانگریس چھوڑ کر منسٹر بننے کیبعد انکے بیانات بھی میڈیا سے اوجھل نہ رہ سکے اور اندر کا اصلی لال سنگھ سامنے آیا -2002 بائی پاس الیکشن میں این سی کی ٹکٹ پر جیتنے والے طالب چوہدری صاحب بھی آجکل کمبل کے پھول کے مداح ہیں - 

سترہویں لوک سبھا سیٹ کے لئے سیکولر کانگریس نے اپنا کینڈیڈیت ہار کے ڈر سے خطہ پیر پنجال کو پھر  نظر انداز کیا اور جموں سے کانگریس کے ایک قد آور چہرہ رمن بھلہ  کو ٹکٹ دیا - رمن جی کل پرسوں پونچھ راجوری کے دورے پر تھے جہاں لوگوں نے اپنے ساتھ ہوئی تمام نا انصافیاں بھلا کر انکا جگہ جگہ پر تباک استقبال کر کے ملک بھر کو یہ پیغام دیا ہے کہ سیکولر ازم کا بھرم کیسے رکھا جاتا ہے - پہاڑی-گوجر دلدل میں پھنسی اس قوم نے اپنے  علاقائی مفادات کو داو پر لگا کر سیکولر ازم کی آبیاری کل بھی کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں - ارے اور تواور پیر پنجال کے مختلف مکاتب فکر کے علماء بھی سیکولر ازم کیساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور میرے نزدیک یہ ایک خوش آئند قدم ہے - 
رمن بھلہ کا ویسے جموں میں تعمیر وترقی کے لحاظ سے ریکارڈ کافی اچھا ہے - اگر محترم جیت جاتے ہیں تو انہیں اپنے پیش رؤں سے ہٹ کر اس پسماندہ ترین علاقے کے لوگوں کی تعمیر و ترقی میں نئی صبح کا آغاز کرنا ہوگا -


The author can be contacted at: mohdarshid01@gmail.com

Disclaimer: The views expressed by the author are his personal and do not necessarily represent the Pir Panjal Post's editorial stance.

Pir Panjal Post is a blogging outlet which aims at educating people and creating awareness on the issues concerning human society like Education, Politics, Economics, Science, art and literature. The main focus of this blog is on encouraging the budding writers, poets, painters, calligraphers, photographers etc. Besides, it intends to serve the vernacular languages.