فرقہ وارانہ رجحانات اور خطہ پیر پنجال کے مسلمان

 اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآن کریم میں مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو"، اس کے بعد ایک آیت چھوڑ کر آیت نمبر 105 میں پھر فرمایا "اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے". جہاں ایک طرف قرآن کریم نے مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی ممانعت بیان کی وہیں دوسری طرف آپسی بھائی چارے اور اتحاد قائم رکھنے کا بھی حکم دیا گیا، سورہ الحجرات کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحم کیا جائے". اسی طرح ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور اتفاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا "کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، آپس میں حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو" (صحیح بخاری 6064).


یہ بات تو واضح ہو گئی کہ اسلام کی تعلیمات تفرقہ بازی کے خلاف اور باہمی اتحاد و بھائی چارے کے حق میں ہیں لیکن جہاں بےشمار فکری، نظریاتی اور مسلکی اختلافات موجود ہوں وہاں اتحاد اور بھائی چارہ کیسے ممکن ہے؟ دور حاضر کے ایک معروف اسلامی اسکالر سے کِسی نے سوال کیا کہ مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے نہایت ہی خوبصورت جواب دیا جس کا خلاصہ کُچھ یوں ہے کہ اختلاف کو ختم کرنا نا ممکن ہے۔ جہاں دو زندہ انسان ہوں وہاں رائے کا اختلاف ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں۔ اختلافِ رائے انسانی تہذیب کا تاریخی ورثہ ہے۔ البتّہ اس فطری تقاضے کو جہالت اور انتشار کی شکل دینا اور خود کو سو فیصد صحیح اور دوسروں کو سو فیصد غلط قرار دینا نہایت ہی مذموم عمل ہے۔ یہ رویّہ اہلِ علم کو ہر گز زیب نہیں دیتا بلکہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ایسا رویّہ جہالت کی عکاسی کرتا ہے۔ خدا کی اس کائنات میں انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی ہستی لغزش سے پاک نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی غیرِ نبی سے سو فیصد اتفاق کرتا ہے تو اُسے اپنی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ سو فیصد اتفاق تو صرف حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی تناظر میں امام مالک رحمت اللہ علیہ کا کا قول بھی نہایت ہی اہم ہے۔ آپ علیہ الرحمۃ قبرِ رسولﷺ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ "اِس صاحبِ قبر کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی ہر بات مقبول ہو اور کوئی بات مردود نہ ہو اور آپ ﷺ کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اختلاف نہ کیا جا سکے (سیر أعلام النبلاء 8/93)".


لیکِن افسوس اور ہماری بدنصیبی کہ ہمارے ہاں جو مذہبی فکر مسلّط ہے وہ اس کے بالکل برعکس مزاج اور نظریئے کی حامل ہے۔ ہمارے یہاں کسی کے حق پر ہونے کے جو اصول و مبادی قائم کیے گئے ہیں وہ اسلام کے ان سنہری اصولوں کے بالکل خلاف ہی نہیں بلکہ متصادم بھی ہیں۔ ہمارے ہاں (یعنی خطہ پیر پنجال میں) آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں متشدد مذہبی فکر کے حامل علماء دین معاشرے میں انتشار اور بےچینی کی فضاء قائم کرتے رہتے ہیں۔ چند دن قبل اُتر پردیش سے تشریف لائے ہوئے ایک عالم دین نے ایک مرتبہ پھر اس خطے کو انتشار کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی اور ممبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس انداز میں گفتگو فرمائی اُسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس مرتبہ عالم اسلام کی معروف شخصیت اور بین الاقوامی سطح پر مقبول عالم دین، علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب، عالمی شہرت یافتہ اور معروف مبلغ دین مولانا طارق جمیل صاحب اور نوجوان محقق عالم انجینئر محمد علی مرزا صاحب کو نشانہ بنایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ ان اسکالرز سے اتنے خفا کیوں ہیں؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ خطّہ پیر پنجال (جہاں اکثریت بریلوی حضرات کی تھی) کی عوام اور بالخصوص پڑھے لکھے نوجوان اب ایسے علماء کو پسند نہیں کرتے جو امت مسلمہ میں فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کو فروغ دیتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ان کی پسند وہ علماء ہیں جو فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں. ایسے علماء جو علم، حکمت، شعور اور بیداری کی طرف دعوت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کی بات کرتے ہیں. 


دوسری وجہ یہ ہے کہ خاص کر دو شخصیات جو بریلوی بیک گراؤنڈ رکھنے ہیں یعنی کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب، ان دونوں نے فرقہ واریت اور تکفیری سوچ کے خلاف جو کام کیا ہے اور اس نظریئے کو جو شکست فاش دی ہے وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی کام ہے۔ جو لوگ پچھلی چند دہائیوں کے حالات سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک دور میں اس خطے میں تکفیریت کا کتنا بول بالا اور عروج تھا لیکن آج حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اور اس میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور انکی عالمی تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کا بہت بڑا رول ہے. ان کے بعد مولانا طارق جمیل صاحب نے جس طرح مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ أحسن تعلقات قائم کئے اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا سلسلہ شروع کیا اور مسلکی دوریوں کو کم کرنے کی کوشش کی، وہ واقعی قابل تحسین ہے. پھر سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ چار پانچ سال میں انجینئر مُحمّد علی مرزا صاحب نے بھی اس بات پر بے حد زور دیا کہ اختلافات کے باوجود تمام مسالک اسلامیہ و مکاتب فکر کے لوگ مسلمان ہیں اور سب آپس میں بھائی بھائی ہیں. اب وہ طبقہ جو دوسرے فرقوں سے اتحاد کرنا تو درکنار انکو مسلمان ہی نہیں سمجھتا بلکہ، اپنے علاوہ سب کی تکفیر کا قائل ہے، اس طبقے کوان شخصیات اور انکے کام سے تکلیف ہونا لازمی تھا.


تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ مسئلہ خلافت و ملوکیت اور اہل بیت کے عنوان پہ بھی ان تینوں اسکالرز نے کتاب و سنت کی روشنی میں جو مقدمہ پیش کیا ہے اور عوام کے ذہن کو جس طرح متاثر کیا ہے وہ ان مولوی حضرات کے لیے باعث پریشانی ہے۔ کیونکہ انکی اکثریت ملوکیت کی نظریاتی حمایت میں اپنی زندگیاں کھپا چکی ہے۔ اور اب اپنی آنکھوں سے اپنی محنت پہ پانی پھرتا ہوا دیکھ کر یہ لوگ اس طرح کا رد عمل دیتے ہیں۔ چوتھی وجہ (میرے خیال میں یہ سب سے اہم وجہ ہے) یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور انجینئر علی مرزا صاحب نے جذباتی باتوں، جھوٹے قصّے کہانیوں اور کُفر کے فتووں کے بجائے علم و تحقیق، سند و حوالہ اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کا جو ماحول اور نظریہ پیش کیا ہے وہ ان روایتی علماء کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق جو شخص بھی علم سے تھوڑی بہت وابستگی رکھتا ہے وہ ان اسکالرز سے کسی نہ کِسی سطح پہ متاثر ہوتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان حضرات نے علم دین اور خدمت دین کے لیے جو محنت کی ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ 


آج کا دور جديد چیلنجز کا دور ہے اور ہماری نوجواں نسل اس دور میں پیش آنے والے مسائل کا حل مانگتی ہے اور جب یہ لوگ دیکھتے ھیں کہ ممبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جلوہ افروز علماء کے پاس کوئی علمی بیانیہ نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے انہوں نے یا تو الحاد کی طرف جانا ہے یا پھر اُن اسکالرز کی طرف جانا ہے جو اگر حل پیش کرنے سے قاصر بھی ہوں تو کم از کم کوئی بہتر ڈائریکشن دینے میں رہنمائی کرنے کی قابلیت تو رکھتے ہوں۔ علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے پوری دنیا میں ہزاروں ایسے تلامذہ ہیں جو ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب، مولانا طارق جمیل صاحب اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے جس طرح اتحاد امت کے لئے اپنی خدمات انجام دی ہیں وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ دوسروں سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود اُنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمتی سمجھنا، اُنکے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھنا اور اس کے علاوہ تمام دینی و دنیاوی معاملات و مراسم رکھنے کو جائز سمجھنا وغیرہ، ان اسکالرز کی اوّلین ترجیحات میں سے ہے۔ جبکہ فرقہ پرست مولويوں نے تو ایک دور میں اپنے مسلک کے علاوہ دوسروں سے ہاتھ ملانے کو بھی نکاح ٹوٹنے سے تعبیر فرمایا تھا اور ذاتی تجربہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ روش آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ایک خاص طبقے میں موجود ہے۔  


چھٹی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کل تک ہمیں دوسروں کے باطل عقائد و نظریات بتا کر اُنہیں کافر، مرتد، بدمذہب اور گمراہ کہتے اور کہلواتے تھے، آج بالخصوص انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے دلائل اور ثبوتوں سے اُنکے اندر ایسے ایسے باطل عقائد اور نظریات ثابت کیے ہیں کہ جو شخص بھی انکا مطالعہ کرتا ہے یا تھوڑا سا غور و فکر کرتا ہے وہ اُن سے شدید بیزاری کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ نتیجے کے طور پہ یہ علماء انجینئر صاحب پہ غُصّہ کرنے اور دل کی بھڑاس نکالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ساتویں وجہ یہ ہے کہ شخصیت پرستی، بُزرگ پرستی، فرقہ پرستی اور اندھی تقلید کی جو روش ان حضرات نے عوام میں پھیلا رکھی تھی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور انجینئر علی مرزا صاحب جیسے لوگوں نے اُس روش پہ جو کاری ضرب لگائی ہے وہ بھی ان لوگوں کے لیے باعث پریشانی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دنیا کی کسی بھی ہستی کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنا جائز نہیں ہے۔ دین میں حرفِ آخر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب اور مُحمّد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سنت ہی ہے یعنی قرآن اور مجسّم قرآن (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلا جا سکتا ہے اور دین میں آخری دلیل، حجت اور آخری پیمانہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ اُن کے علاوہ کسی کی بات کو بھی ادب و احترام کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہ علماء علمی دلائل سے عوام کو (بالخصوص پڑھے لکھے لوگوں کو) مطمئن کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اس لیے یہ لوگ وقتاً فوقتاً ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی جھوٹے الزامات لگاتے ہیں تو کبھی اُن کی کردار کشی کر کے عوام کو اُن سے بیزار کرنے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ کبھی اُنہیں گمراہ کہتے ہیں، کبھی کافر کہتے ہیں تو کبھی کسی کا ایجنٹ کہہ کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً اللّٰہ تعالٰی ان کے شر سے خیر برآمدہ کر دیتا ہے اور جو بندہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب یا انجینئر محمد علی مرزا صاحب کے بنیادی بیانیے اور مقدمے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وُہ ان کی بات کا قائل ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ہوں، مولانا طارق جمیل صاحب ہوں یا انجینئر علی مرزاصاحب، نہ تو یہ لوگ فرشتے ہیں اور نہ ہی معاذ اللہ نبی ہیں بلکہ ہماری طرح انسان ہیں۔ ان سے بھی غلطی کا امکان ہے، انکی بھی کوئی بات دلیل کے ساتھ رد کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں کہ انکی ہر بات مقبول ہو بلکہ اگر کوئی شخص انکی بھی اندھی تقلید کرتا ہے تو اُسے بھی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

لیکِن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو علماء مسلکی اختلافات کی بنیاد پر تفرقہ بازی کرتے ہیں، اپنے مخالفین کو خارج الاسلام کرتے ہیں، جہنمی قرار دیتے ہیں اور مسجد میں، منبر رسولﷺ پر بیٹھ کر دوسروں کو گالیاں نکالتے ہیں، وہ ان سب جاہلانہ حرکتوں سے دین کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں؟ تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے یہ لوگ فقط اپنی حقیقت دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ رہی بات خدمتِ دین کی تو ان سے گزارش ہے کہ اب دور بدل چکا ہے، اس جدید دور میں حق کی جستجو رکھنے والے ہر شخص کے لیے اُس تک پہنچنے کے تمام ذرائع اور راستے ہموار ہو چکے ہیں۔ جبکہ ان حضرات کے یہ تفرقہ بازی پر مبنی اقدامات صرف انتشار پھیلانے اور بالخصوص نئی نسل کو دین سے بیزار کرنے کے علاوہ اور کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے۔ اس لیے ان علماء کو خدا کا خوف کرنا چاہیے اور لوگوں کو جہنم میں دھکیلنے کے بجائے اُنہیں وہ دین بتانا چاہیے جو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہمیں دے کر گئے ہیں۔ مسلم سماج کے ہزاروں دُکھ اور مسائل ممبر رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پہ بیان کیے جانے کے متمنی ہیں۔ 

رہی بات عقیدے کی تو اگر ان فرقہ پرست علماء کے قائم کردہ اصولوں اور پیمانوں کے مطابق لوگوں کو پرکھنا شروع کر دیا جائے تو شاید انکے اپنے گھروں میں بھی صحیح العقیدگی کے پرچے میں کوئی کامیاب نہ ہوگا۔ اس لیے ہمارا یہی ماننا ہے کہ اگر کوئی شخص تاویل، تشریح اور سمجھ کی غلطی کا شکار ہو گیا ہے تو اُسے احسن طریقے سے دعوتِ اصلاح دی جائے اور اگر ھٹ دھرمی کرے تو معاملہ اللہ تعالٰی کے سپرد کر دیا جائے، وہ خود بروزِ قیامت حق اور باطل میں فیصلہ فرما دے گا۔

 دور حاضر میں انسان ہر طرح کے سياسی، سماجی اور معاشی بحران کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں ہر طرف انتشار اور بےچینی کا ماحول ہے۔ ایسے حالات میں مذہب اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو اِنسانی سماج کے لیے رحمت ہونا چاہیے نہ باعث عذاب و پریشانی۔ اختلاف راۓ کا احسن طریقے سے اظہار کرنے سے لوگوں کی اصلاح و ہدایت ہوگی جب کہ انتشار اور کُفر کے فتووں سے مسائل مزید الجھنوں کا شکار ہوں گے۔ پہلے ہی یہ خطّہ اربابِ سیاست کی خود غرضانہ سیاست کی بھینٹ چڑھ کر ذاتوں، قبیلوں اور نسلی تعصّب کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اگر فرقہ واریت اور مسلکی انتشار کا جن بھی بے قابو ہو گیا تو ہماری آنے والی نسلوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ مسلمانوں میں تفریق اور انتشار کے جس پروجیکٹ پہ دشمنان اسلام کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں ہمارے علماء اور سیاسی قیادت وہی کام عوام کے مالی اور عملی تعاون سے کر رہے ہیں۔ اس لیے عوام کی بھی یہ ذمےداری بنتی ہے کہ وہ تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی مسائل میں جذبات کے بجائے عقل و فہم سے کام لیں اور انتشاری سوچ اور فکر کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔


~ سرتاج حفیظ راٹھور : ریسرچ اسکالر, شعبہ تاریخ، علیگڑھ مسلم یونیوسٹی علیگڑھ


یہ مضمون مصنف کے شخصی خیالات پر مبنی ہیں اور کسی بھی صورت میں 'پیر پنجال پوسٹ' کی رائے کو ظاہر نہیں کرتا۔

Pir Panjal Post is a blogging outlet which aims at educating people and creating awareness on the issues concerning human society like Education, Politics, Economics, Science, art and literature. The main focus of this blog is on encouraging the budding writers, poets, painters, calligraphers, photographers etc. Besides, it intends to serve the vernacular languages.