مختصر سفر نامہ و قلعہ پرتھوی پال کی تاریخ - عثمان چوہدری

ضلع پونچھ کی بلند ترین چوٹی قلعہ پرتھوی پال میرے گھر واقع موضع سنگیوٹ تحصیل مینڈھر ضلع پونچھ سے مشرق میں بلند ترین پہاڑی پر موجود تھا۔ ایک روز جب سورج کی کرن نکلنے کے ساتھ ہی نئے دن کا آغاز ہوا تو اچانک سے میرے دماغ میں ایک خیال نے دستک دی کہ کیوں نہ آج کا دن اسی خوبصورت و تاریخی مقام پر گزارا جاۓ اور اس جگہ کی تاریخی نوعیت کو جاننے سمیت راستے میں آنے والے جھرنوں کی فراوانی دلکش قدرتی مناظر سے بھی روبرو ہوا جاۓ اور اس اونچائی والے مقام پر پائی جانے والی قدرتی جڑی بوٹیوں سے متعلق بھی کچھ جانکاری لی جائے اس روز میرے ساتھ میرے ایک پھوپھی زاد بھائی محمد اخلاق بھی تھے جو پیشہ سے محکمہ تعلیم میں استاد ہیں اور تاریخی و سیاحتی مقامات پر جانے کا بھی ذوق رکھتے ہیں جب میں نے انہیں اس متعلق بتایا تو انہوں نے اولین فرصت میں ہی مجھے چلنے کے لیے ہی کہہ ڈالا اور پھر یوں ہوا کہ ہم اس مقام کی طرف چل پڑے جوں جوں راستہ طے کرتے گے تو نئے نئے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں یقین جانیے راستے میں جو لوگ بھی ملتے رہے انہیں دیکھ کر ایمان کی تازگی ہوتی رہی جب ہم نے کافی راستہ طے کر لیا تو کچھ تھکان سی محسوس ہوئی ٹھیک اسی دوران ہم پہنچ چکے تھے ایک نہایت ہی خیر خواہ و دوراندیش شخص مصر خان کے گھر جنہوں نے ہمارے آنے کی اطلاع پاتے ہی کھانے کا انتظام کر لیا تھا وہاں پہنچتے ہی خیرخواہی و احوال جاننے کے بعد ٹھیک ہماری ہی خواہش کے مطابق لسی و مکی کی روٹی ہمارے لیے لائی گئی جس سے کھاتے وقت بہت مزہ آیا کیوں کہ اس میں روٹی سے زیادہ پیار کی مٹھاس تھی۔

اس کے بعد ہم وہاں سے اپنی منزل کے لیے نکل گئے اور کچھ ہی دیر میں ہم پرتھوی پال کے دامن میں پہنچے جہاں پر ایک مشہور جھرنا جسے چھم گھاٹ کے نام سے جانا جاتا ہے پر پہنچ گے جس کو دیکھتے ہی ہمیں قدرت کی کاریگری پر رشک ہونے لگا کیونکہ وہاں کی خوبصورتی اپنے آپ میں ہی قدرت کو بیان کر رہی تھی اس وقت ہم نے وہاں پر کچھ قدرتی مناظر کو اپنے کیمروں میں قید کیا جو ابھی تک ہمیں اس یادگار سفر کی یاددہانی کراتی ہیں بالآخر ہم اپنی منزل کی جانب ایک بار پھر جنگل کے راستے کی کٹھنائیوں و پہاڑوں کی پیچیدگی سے بے خبر ہو کر روانہ ہوگے اس دوران ہمیں سفر کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کیونکہ وہاں کی خوبصورتی ہمیں اس طرح اپنی اور  مائل کیے جا رہی تھی کہ ہمیں تھکاوٹ یا پیچیدگی کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا اب ہم جس مقام پر تھے وہ بالکل تاریخی قلعہ پرتھوی پال کا بغل تھا اور وہاں پر قبائلی طبقہ کی ایک ڈھوک بھی تھی جہاں کچھ لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ موجود تھے علاقے میں نئے لوگوں کی آمد سے وہ لوگ کافی خوش نظر آ رہے تھے اور ہمیں بھی ان سے مل کر ایک خاص خوشی مل رہی تھی اب چونکہ چلنے کی وجہ سے ایک بار پھر بھول کا احساس ہو ہی رہا تھا تو جب وہاں ہمیں کھانا کا بولا گیا تو ہم نے اولین فرصت میں ہاں کئی جس کے بعد ہماری پسندیدہ لسی اور مکی کی روٹی ہی دی گئی جس کو ہم نے وہاں کے لوگوں کے‌ساتھ بیٹھ کر کھایا اور تب ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج دوپہر کا کھانا آج تک کی زندگی میں کھاۓ ہوۓ پکوانوں میں لزیز و بہترین تھا اب تھوڑا ہی چلنے کے بعد جیسے ہماری نظر اس مقام پر پڑی جو ہماری منزل تھا تو یقین جانیے اتنی خوشی ہو‌ رہی تھی کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اس جگہ نظر پڑتے ہی ہم راستے کی ساری تکلیفوں کو بھول گے اور دل میں اب صرف ایک سکون ہی سکون تھا وہاں پہنچتے ہی ہماری نظر ان کھنڈرات پر پڑی جو اپنے دور میں ایک بڑے محل ہوا کرتے تھے تاریخی مناظر کو دیکھ کر ایک طرف دل میں خوشی ہو رہی تھی تو دوسری طرف ثقافت کی حالت دیکھ کر ملال بھی ہو رہا تھا خیر یہ کام تو صحافتی برادری کا تھا کہ وہ وہاں جاتے اور سرکار تک بات پہنچاتے تاکہ اس تاریخی مقام کو محفوظ کیا جا سکتا ہمارا مقصد تو کچھ اور تھا اور ہمیں خوشی ہی تھی کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے تھے کھنڈرات کو عبور کرتے کرتے ہم ایک مقام پر پہنچے جس کے متعلق تاثر سنا تھا کہ وہاں سے بیٹھ کر پورے پونچھ و راجوری کی کئی جگہوں پر نگاہ رکھی جاتی تھی تاریخی تاثر کو ہی روبہ خیال لاتے ہوۓ ہم اس مقام پر پہنچے تو ہمیں ایک عجیب سی راحت اور تاریخی سچائی نظر آئی اپنی آنکھوں سے ہم نے ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر حویلی و منڈی سرنکوٹ کی کئی جگہوں کے دیدار ہی نہیں کیے بلکہ راجوری ضلع درہال بدہل و منجہ کوٹ کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ مغل روڑ پر واقع تاریخی پیر گلی کا بھی نظارہ کیا

 اور اب ہمارے سامنے صداقت ہی تھی کہ یہ قلعہ مہاراجاؤں کے لیے دفاعی مرکز تھا جہاں سے وہ اپنی دور دراز کی سرحدوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے رعایا کو بھی دیکھتے تھے اب تھوڑی سی نظر دوڑاتے ہیں اس قلعہ کے تاریخی پس منظر کی طرف جہاں سے ہمارے ذہن میں اس قلعہ کو دیکھنے کا خیال ظہور پذیر ہوا تھا یہ قلعہ پونچھ و راجوری کے وسط میں بلند ترین چوٹی پر واقع ہے جہاں پر محب وطن لوگوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا یہاں کے لوگوں نے جب بھی وطن کی حفاظت کی بات آئی تو چار قدم آگے چل کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے  یہاں قلعہ پرتھوی پال پر ہوۓ معرکہ کو بھی تاریخ کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل جب دشمنوں نے قلعہ پرتھوی پال پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں کے اونچی پہاڑیوں پر رہنے والے بہادر نوجوانوں نے قلعہ کا دفاع کر کے دشمنوں کو دھول چٹائی تھی اس معرکے کی کی اگر تاریخی حیثیت کو جانچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قلعہ پرتھوی پال یہ تاریخی قلعہ ضلع صدر مقام شہر پونچھ سے شمال مشرق کی طرف 45 کلو میٹر کی دوری پر واقع گاؤں سنگیوٹ کی بلند و بالا چوٹی پر موجود تھا آج کے دور میں بھی یہ قلعہ ضلع کی بلند ترین چوٹیوں میں شمار ہوتا ہے جس کی سطح سمندر سے اونچائی ایک اندازے کے مطابق گیارہ ہزار فٹ ہے یہ علاقہ تحصیل مینڈھر و سرنکوٹ اور ضلع راجوری کی سرحد پر واقع ہے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل یہ علاقہ ضلع راجوری کی ماتحت آتا تھا۔ دسویں صدی میں جب پال‌ خاندان دور اقتدار میں تھا تب کہ راجا پرتھوی پال نے اس جگہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوے یہاں پر ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کو قلعہ پرتھوی پال کے نام سے قیامت تک جانا جاتا رہے گا اس قلعہ کی خوبی‌ یہ ہے کہ یہاں سے ایک ساتھ سرنکوٹ مینڈھر پونچھ و راجوری ضلع پر ایک ساتھ نظر رکھی جا سکتی ہے اب اس قلعہ کی تاریخی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راج ترنگنی جو تاریخی دنیا کی معتبر کتاب مانی جاتی ہے کہ مصنف کلہن نے اس قلعہ کا ذکر اپنی کتاب راج ترنگنی میں قلعہ پرتھوی گیری کے نام سے کیا ہے عین ممکن ہے کہ اس زمانے میں اس قلعہ کا نام پرتھوی گیری ہی ہو کیونکہ اس کی تعمیر پال خاندان کے جس راجا نے کی تھی اس کا نام بھی پرتھوی پال ہی تھا اسی پس منظر کے پیش نظر آج بھی اس قلعہ کہ وہ کھنڈرات والی پہاڑی کو پرتھوی پال کے نام سے ہی جانا جاتا ہے واضع رہے کہ جب محمود غزنوی نے 1014 سے 1021 کے بیچ پونچھ کے مشہور قلعہ لوہر کوٹ پر ناکام حملے کیے تھے تب اس کے ساتھ مشہور مؤرخ البیرونی بھی تھا البیرونی نے اپنے مشاہدات کے بعد لکھا تھا کہ پونچھ میں لوہر کوٹ کے بعد اور بھی مضبوط قلعے ہیں جن میں پرتھوی پال و راج گری قابل ذکر ہیں اب اگر آج کی بات کی جائے تو یہ قلعہ پوری طرح ٹوٹے ہوۓ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے جب ہم نے مشاہدہ کیا تو وہاں پرتھوی پال پہاڑی کھنڈرات پانی کے ایک کنویں و کچھ نقش دستاویزات کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

 قلعہ والی جگہ کے ارد گرد اب چاروں اور اونچے پہاڑ گھنے جنگل سر سبز گھاس چراگاہیں اور ٹھنڈی ہوائیں نہایت ہی دلکش مناظر پیش کرتی ہیں بہت زیادہ اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں سردی کے موسم میں برف بھی پڑتی ہے مگر موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی علاقے میں لوگوں کا آنا جانا شروع ہو جاتا ہے جس سے یہاں کی رونق میں اور بھی چار چاند لگ جاتے ہیں ہم بھی جب یہاں پہنچے تو یہاں کے لوگوں سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کو مل گیا لوگ گوجری و پہاڑی زبانوں میں اونچی پہاڑیوں پر نغمات گنگنا کے اپنی بہترین ثقافت کی مثال پیش کر رہے تھے کلہن نے ہی راج ترنگنی میں لکھا ہے کہ قلعہ پرتھوی پال پر کشمیر کے مشہور راجا ہرش کے حملے و راجوری کے راجہ سنگرام پال کے درمیان کافی تصادم آرائی ہوئی وہ لکھتے ہیں کہ راجہ ہرش دیو 1098 عیسوی میں جب راجوری کو فتح کرنے نکلا اس وقت وہ اپنے ساتھ کافی تعداد میں فوج بھی لے کر آیا تھا جب وہ سرنکوٹ میں پہنچا تو اس کی نظر قلعہ پرتھوی پال پر پڑی تو اس نے قلعے کی بلندی و خوبصورتی اور دلکش مناظر کو دیکھتے ہی راجوری سے پہلے قلعہ پرتھوی پال کو فتح کرنے کی ٹھان لی اور اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ راجوری کی طرف بڑھنے سے پہلے پرتھوی پال کو فتح کرنا ہے اس نے اپنی فوج سے قلعہ کا محاصرہ کرا لیا مگر قلعہ کی اونچائی اس قدر تھی کی اس کی فوج کا کافی بڑا لشکر بھی قلعہ کو فتح کرنے میں کامیاب نہ ہوا واضع رہے کہ جہاں پر یہ قلعہ واقع ہے وہ جگہ چاروں طرف سے گھنے جنگلوں و لہلہاتے سبزہ زاروں و اونچے پہاڑوں سے گھیری ہوئی ہے جو اپنی خوبصورتی کی خود ضامن ہے حالانکہ سردی کے موسم میں بلندی کے مقام پر ہونے کے باعث یہاں کافی زیادہ برف بھی گرتی ہے جس سے یہاں آنے جانے کا رستہ ختم ہو جاتا ہے مگر جیسے ہی گرمیوں کی شروعات ہوتی ہے تو لوگ یہاں کی دھوکوں میں اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر آ جاتے ہیں یہاں کی سب سے خوبصورت چیز جو ہمیں لگی وہ یہاں پر بسنے والے لوگوں کی اپنے ورثے کے تئیں محبت و لگاؤ تھا مختلف جگہوں پر لوگ اونچی اونچی پہاڑیوں پر مقامی زبانوں گوجذی و پہاڑی میں نغمات گنگنا رہے تھے جو ذہنیت کو بے حد محظوظ۔ کر رہے تھے۔ اسی قلعہ سے متعلقہ کلہن نے راج ترنگنی میں لکھا ہے کہ کشمیر کے راجا ہرش دیو اور راجوری کے راجا سنگرام پال کے درمیان 1098 میں جب جنگ کے آثار بنے تو راجہ ہرش راجوری پر حملہ کرنے نکلا اور وہ جب راجوری کی طرف بڑھ رہا تھا تبھی اس کی نظر سرنکوٹ کے مقام سے قلعہ پرتھوی پال پر پڑی۔ قلعہ کی بلندی و خوبصورتی اور دلکش مناظر کو دیکھتے ہی راجہ ہرش کا ذہن بدل گیا اور اس نے راجوری پر حملہ کرنے سے پہلے قلعہ پرتھوی پال کو فتح کرنے کا من بنا لیا جس کے بعد اس نے اپنی فوج کو راجوری کے بجاۓ پہلے قلعہ پرتھوی پال پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا اور فوج سے قلعہ کا محاصرہ کرا لیا مگر وہ آخری وقت تک صرف محاصرے سے آگے نہیں بڑھ سکا.

 جس کی بڑی وجہ قلعے کی اونچائی بلندی و مضبوطی تھی جس کے آگے ہرش کا بڑا لشکر بھی مات کھا گیا تاریخ دان بتاتے ہیں کہ جب محاصرہ کا ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا تو تب فوجوں نے راجہ سے کہا کہ قلعہ کو فتح کرنا مشکل ہے اس لیے محاصرہ ختم کر کے آگے بڑھنا چاہیے مگر راجہ ہرش قلعہ کی اہمیت سے اس قدر متاثر گیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس نے اپنی فوج کی ایک نہ سنی اور محاصرہ جاری رکھنے کو کہا اب موقع پاتے ہی راجوری کے راجہ سنگرام پال نے راجہ ہرش کے ایک منسٹر کو بھاری رشوت دے کر خرید لیا جس کا راجہ ہرش کو بڑا نقصان ہوا اس منسٹر نے رشوت لیتے ہی راجہ ہرش کو کشمیر واپس ہو جانے کی نصیحت دے ڈالی جس پر راجہ ہرش نے انکار ہی کیا جس کے بعد اس منسٹر نے فوج کو راجہ کے خلاف بڑھکانا شروع کر دیا اب فوج جو پہلے سے ہی راجہ کی ایک ضد کی وجہ سے ناراض تھی انہوں نے اب راجہ کے آگے شرط رکھ دی کہ یا تو وہ انہیں پورا جنگی سازو سامان مہیا کروائیں نہیں تو وہ واپس جائیں گے اب راجہ کا خزانہ عامرہ تو کشمیر میں تھا اس لیے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا اب اسی کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ راجہ کہ اس رشوت خور وزیر نے یہ افواہ پھیلائی کے ترک افواج نے کشمیر پر حملہ کر دیا ہے یہ خبر سنتے ہی راجہ پریشان ہو گیا اور اس نے اپنی فوجوں کو محاصرے کو ختم کر کے واپس کشمیر پہنچنے کی ہدایات جاری کر دی۔ یہاں یہ بات جو ہم نے پائی کہ اس وقت بھی راجہ ہرش کے آڑے جو چیز آئی وہ اس قلعے کی مضبوطی و بلندی ہی تھی لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو اس مضبوطی کو کھنڈرات میں بدلتا دیکھ کر نہایت افسوس بھی ہوا کہ ہم نے کس بے رحمی سے اپنی وراثت کا خاتمہ کیا ہے قلعہ کے ارد کھنڈرات میں گھومتے ہوۓ ہمیں محض ایک کنواں و کچھ کتبے ہی ملے جن پر کچھ تحریری دستاویزات درج تھیں۔ اس سارے سفر نامے و تاریخی مضمون کے اختتام پر میں محکمہ آثار قدیمہ جموں و کشمیر و ضلع انتظامیہ کے ان لوگوں جو ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ذمہ دار  ہیں سے گزارش کرتا ہوں کہ قلعہ پرتھوی پال ہماری بہترین وراثت ہے اسے ضائع نہ ہونے دیں اسے اپنی تحویل میں لیں اور اگر ہو سکتا ہو تو اس تاریخی مقام کی مرمتی کر کہ اس کو سیاحت کے  نقشے پر لایا جائے جسے یہاں سیاحت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ کئی بے روزگار مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کا انتظام بھی ہو جاۓ گا۔

مصنف: عثمان چودھری ضلع  پونچھ کی تحصیل مینڈر سے تعلق رکھتے ہیں. وہ ایک سماجی کارکن ہیں.

Pir Panjal Post is a blogging outlet which aims at educating people and creating awareness on the issues concerning human society like Education, Politics, Economics, Science, art and literature. The main focus of this blog is on encouraging the budding writers, poets, painters, calligraphers, photographers etc. Besides, it intends to serve the vernacular languages.