کیا ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں


کیا  ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں؟ ہے نا کتنا عجیب سوال۔ بھلا اپنے آپ کو کون نہیں جانتا۔ بچپن ہی سے تو مائی سیلف پر  مضموںن لکھتے آئے ہیں۔ لیکن ذرا توقف کیجیئے اس سوال کو فضول سمجھ کر رد کرنے سے پہلے کتنے لوگ ہیں جو اپنا بلڈ گروپ جانتے ہیں۔ یقینًا بہت سے لوگ۔ اپنے وزن کے متعلق تازہ ترین معلومات تو ہونگی۔ آپ کو معاشرتی وزن  نہیں صاحب ابھی صرف جسمانی وذن کی بات ہے۔ ہم دن میں کئی مرتبہ آینہ دیکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ جائیزہ لیتے ہیں۔ کیا ہم اپنی  آنکھون کی رنگت سے باخبر ہیں۔ ہمیں ہزاروں چہرے یاد ہیں۔ فون پر آواز سنتے ہی مخاطب کا چہرہ ہماری چشم تصور  میں ہوتا ہے۔ اچھا ذرا اب اس فرد کو جس کی آواز م سب سے زیادہ سنتے ہیں یعنی ہم خود، کیا ہم آنکھیں موند کر اپنا چہرہ مکمل طور پر دیکھ سکتے ہیں؟ بہت سے لوگ یقینًا  مسکرا کر نہ میں جواب دیں گے۔ ذرا حیرت بھی ہو رہی ہو گی۔ لیجیئے یہ تو چند باتیں بالکل سامنے کی تھیں۔ تھوڑا سا آگے چلتے ہیں۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کے انسان کی قوت حفظ کس سطح کی ہے۔ کتنے وقت میں کتنا بالکل صحیح طور پر یاد کیا جا سکتا ہے۔ کتنے احباب ہیں جو یہ خبر رکھتے ہیں کہ ان کا اسٹڈی اسٹیمنا کتنا ہے۔ آپ کتنی دیر یکسوئی سے مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ایک وقت میں کتنا دوڑ سکتے ہیں۔ ایک نشست میں کتنا لکھ سکتے ہیں۔ کون کون جانتا ہے کہ اس میں کون سی صلاحیت موجود ہے اور اسے کتنا نکھارا جا سکتا ہے۔ شاید چند لوگ تو یہ ساری معلومات رکھتے ہوں لیکن ایک عظیم اکثریت نے کبھی ان سوالوں پر غور نہیں کیا۔ انسان  بنیادی طور پر دو چیزوں کا مرکب ہے (روح اور مادہ)۔ یعنی جو مادی وجود نظروں کے سامنے ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان ایک باطن بھی رکھتا ہے اور یہی اخلاق مسکن ہے۔ کبھی ہم نے اخلاقی لحاظ سے اپنا جائزہ  لیا ہے؟ میں کتنا اچھا ہوں اور کتنا برا؟ مری کوں سی عادت بہتر ہے اور شریعت کے وہ کون سے پہلو ہیں جو ناتراشیدہ ہیں اور دوسروں کو چبھتے ہیں۔  میرے ارد گرد لوگ   مجھ سے خوش رہتے ہیں، ناراض یا لا تعلق۔ غصہ اور تحمل کی مقدار مجھ میں کتنی ہے۔ میں صابر اور شاکر ہوں یا شکوہ گزار؟
محبت اور نفرت کے موقع پرست یا دوسروں کا خیال رکھنے والا۔ میرٹ کو پسند کرتا ہوں یا دوسروں کو کندھا مار کر  آگے بڑھ جانے میں یقین رکھتا ہوں۔ لوگوں سے محبت کرتا ہوں یا اسیر ذات ہوں ؟ اس طرح کے ہزاروں سوالات ہیں جو اپنے آپ سے کئیے جا سکتے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ باز اوقات دلچسبی کی بنا پر معلومات جمع کرتے ہیں۔ باز اوقات  جذبہ تجسس قرید پر آمادہ کرتا ہے۔ جس کی سخت ممانت ہے۔کیا بہتر نہیں کے  ہم اپنے بارے میں جاننا شروع کر دیں۔ اپنے متعلق معلومات اکٹھی کر لیں۔  
اس لئے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ: 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

زندگی کے اصرار و رموز جاننے کیلئے، حقیقی زندگی گزارنے کے لئے اور اپنا بننے کیلئے اپنی خبر ہونا ضروری ہے۔ ذات کے سفر پر نکلنے والے، یوں سمجھئیے کائنات کے سفر پر  نکلتے ہیں۔  کیوں کہ اس بہت بڑے جہان میں آدمی جہان اصغر ہے۔ یہ سفر جہاں پر ختم ہوتا ہے وہاں لامحدود روشنی ہے۔ یہ روشنی ہر شئے کی مہائیت کو خوب واضح کرتی ہے۔ حقیقت شناس بتاتی ہے۔ دیکھئے،  جو عرفان نفس حاصل کر لیتا ہے، اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے۔ اسے حقیقت کبریٰ تک رسائی ہوتی ہے۔ قوت و غور و فکر تجزیہ کا زور اور نتائیج کو مرتب کرنے کی صلاحیت یہ سب کچھ اسی لئے عطا ہوا ہے۔ کسی نعمت کا غیر حقیقی استعمال  کفران نعمت اور ظلم ہے۔ ہم میں سے اکثر ذات کے ساتھ اسی ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کو
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا۔
کیا ہمارا نصاب تعلیم نوجوانوں کو اس ساخت پر سوچنے کے لئے کافی و شافی مواد فراہم کرتا ہے۔ کیا ممبر و محراب اس صدا سے آراستہ ہیں؟ کیا ہمارا طاقتور میڈیا خود شناسی کے اس عمل کے لئے تیار ہے؟ ارباب فکر و نظر کے لئے فوڈ فار تھاٹ ہے۔
یا ربّ العزت یا احسان اللخالقین ہمیں عرفان نفس  سے بہرامند فرما اور ہمارے لئے خود شناسی سے خدا شناسی کے سفر کو آسان کر دے۔ آمین۔

سید علی اصغر کاظمی، موہڑہ بچھائی، سرنکوٹ۔
طالب علم، بی ۔ اے سیمسٹر سوم
گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ
9086687095




Pir Panjal Post is a blogging outlet which aims at educating people and creating awareness on the issues concerning human society like Education, Politics, Economics, Science, art and literature. The main focus of this blog is on encouraging the budding writers, poets, painters, calligraphers, photographers etc. Besides, it intends to serve the vernacular languages.