ڈاکٹر فاخرہ نورین اسلام آباد کے ایک مشاعرے میں |
کوئی اکھوا نہیں پھوٹتا
رات کی زرد ٹہنی کی کمزور بانہیں کسی پھول کی آرزو سے تہی
رات بنجر ہوئی کوکھ جیسی ہوئی ،یعنی بے آرزو
کوئی شوقِ فروں تر نہ جذبِ دروں
کوئی ہنگامہ خیزی نہ سیلِ بلا خیز کا سامنا
ایک تیرہ شبی جس میں ذوقِ نمو کا گزر تک نہیں
جن زمینوں کی یومِ ازل سے نہیں بیج سے آشنائی وہ کیسے کہیں
جن دماغوں پہ احساس کا تازیانہ نہیں
شوق کیسے جنیں ،نظم کیسے بنیں
کوکھ میں رکھ کے پالے ہوئے خواب کو
جب تلک آنکھ ماں بن کے روتی نہیں
نظم ہوتی نہیں
نظم
ہوتی نہیں اور تیرہ شبی،
بارور کرنے والی حسیں تیرگی کوکھ میں رکھ کے پالے کسے
دن کے زرخیز لمحے میں گر روشنی بیج بوتی نہیں
بارور کرنے والی حسیں تیرگی کوکھ میں رکھ کے پالے کسے
دن کے زرخیز لمحے میں گر روشنی بیج بوتی نہیں
نظم ہوتی نہیں
شاعرہ
: ڈاکٹرفاخرہ نورین گورنمنٹ ڈگری کالج راولپنڈی ، پاکستان کے شعبہ اردو میں بطورِ اسِسٹینٹ پروفیسر تعینات ہیں۔